Wednesday, May 4, 2016

بکھرے موتی

  Shared by Mukhtiar Bacha on his Facebook page in 2014
 بکھرے موتی

مختا ر باچا

دو قطبی دنیا کے خاتمے کے بعد خیبر پختونخوا اور پاکستان میں بائیں بازو کے کارکن منتشر ہوگئے۔ کشش ثقل نہیں رہا اور یہ سیارچے فضا میں اپنے مقام کی تلاش میں تاہنوز سرگردان ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ شکلیں (Formations) وجود میں آنے لگی ہیں۔ سب میں تشنگی ہے منزل کیلئے دو ٹوک جواب کے منتظر ہیں۔ پیش نظر ایک مسئلہ فکری ہے اور دوسرا منتشر سیاسی ماحول میں اپنے مقام کا تعین۔
دیکھا جائے تو کئی مرغولے بنتے  جارہے ہیں فکر کی بات تب ہوتی جب انتشار میں ایک دوسرے کا گلا کاٹتے گالیاں دیتے اور اس طرح  بھسم ہوجاتے  جو مرکزے بنتے جارہے ہیں (شاید کچھ نظر سے اوجھل ہوں گے) جو اس وقت نشاندہی کے تعریف پر اترتے ہیں تو درجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔


۱۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے نام کے وارث ، جو آج کے دور میں اپنے فکر کو توانائی  دلانے کیلئے سٹالنسٹ تشخص پر زور دیتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ سٹالن کے بعد تحریک موقع پرستی یا سازشوں کا شکار رہا اس کو مضبوط پاکیزگی کے ساتھ پھر سے کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
۲۔ سٹالن کے دورکے بعد  میں مارکسٹ تحریک انحراف کا شکار رہا۔ ورنہ یہ دن دیکھنے نہ پڑتے اور انقلاب ناکام نہ ہوتا۔ انقلاب کو  اصل شکل (بقول انکے) میں برپا  کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھی انٹرنیشنل ، لیون ٹرا ٹسکی کے پیرو کاروں کے مختلف گروپ جن میں لال خان کا گروپ زیادہ موثر ہے۔
۳۔  عوام کو ساتھ جوڑے بغیر اور ان کے عمومی مانگوں کا ساتھ دیئے بغیر پیش قدمی نا ممکن ہے۔ من چلوں کے خواہشات انقلاب نہیں لا سکتی، انقلاب اپنے وقت پر اور تاخیر سے ہوگا ۔بورژوا جمہوریت میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی پیش قدمیوں پر توجہ دینا ہوگا۔ عوامی ورکر ز پارٹی اور نیشنل پارٹی کے گروپ لگ بھگ اس موقف کے ہیں۔
۴۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں سے نتائج حاصل کرنا لا حاصل سعی  ہے۔ بڑے سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے سے ان کو مثبت رخ دیا جاسکتا ہے۔ اے این پی اور قومی وطن پارٹی میں کچھ دوست اس طرح فکر رکھتے ہیں۔
۵۔ سواری کیلئے مناسب گھوڑے کی دستیابی کا انتظار ہے۔ تب تک اذیت کے ساتھ زندگی گزارنے میں عافیت ہے۔ پرانے وفتوں کو یاد کرنا اور     تو جہ ہٹانے کیلئے کسی کام میں مصروف ہونا بہتر ہے۔
ان سب میں کچھ قدر مشترک بھی ہے۔ معروضی لحاظ سے بہتر سیاسی و سماجی فکر کے حامل ہیں ۔ ذاتی زندگی میں عموماَایماندار ہیں ، عوام کا اعتماد ان کو حاصل ہے۔
افکار کے ٹکراو اور ڈائلاگ کا کوئی مربوط و منظم طریقہ کار نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ شادی بیاہ و فاتحوں میں بکھرے ہوئے فقروں کا تبادلہ کیا جائے۔اپنے پیاروں کے نام جو حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔
 اس عنوان سے ایک مختصر منظر نامہ پیش کیا گیا تھا ۔  تفصیل میں جانے سے پہلے عرض کرتا چلوں کہ میں ایک سیاسی کارکن رہا ہوں کوئی دانشور نہیں۔ معروضی مشاہدات پر مبنی تبصرہ کر سکتا ہوں  دوم یہ کہ پختونخوا سے باہر دوستوں سےرابطے بہت کم رہے اس لئے پختونخوا کو بنياد بنا کر لکھوں گا۔ پيارے انجنیئر جميل ملک کا طنز قبول ہے۔
بکھرے موتی شاعری نہیں ہے۔ پختونخوا ميں يہ ہزاروں موتی چاہے جن کا دور پہاڑوں پر بسیرا ہو يا صحراوں، شہروں، ديہاتوں، کارخانوں يا کھيتوں ميں، جب دس بيس سال بعد بھی مليں گے تو سياسی سوچ و فکر کے ساتھ تر و تازہ مليں گے۔ ان کے زہنوں ميں بنيادی تضاد(Principle Contradiction)عموما يکسان رہتا ہے۔ دو ڈھائی سال پہلے پشاور ميں مختلف اضلاع سے ( چاہے جس سياسی پارٹی ميں ہوں ) ان دوستوں کا ايک اجتماع ہوا تھا۔ خطے کی صورتحال، طالبائزيشن کے مسٔلے وجوہات خدوخال لائحہ عمل وغيرہ پر مکمل يکسان موقف تھا۔ ميں نے ان دوستوں سے کہا کہ آپ انسانوں ميں ايک الگ قبيلہ ، خيل ياSpecies  اس لئے ہيں کہ  لمبی ريا ضت اور فکر نے آپ کو ممئز کر د يا ہے۔ کبھی پستول پر فايئر نہيں کيا ہوگا ليکن مورچوں پر چڑھائی کرتے رہے ہيں۔ جيب ميں دو آنے نہيں ليکن باد شاہ نواب آپ کے سامنے ہيچ ہيں ۔قوم پر سختی آتی ہے مارشل لا ہو تو آپ آ گے ہيں۔ جب دوسرے نام نہاد سياسی اکابيرين چھپ سادھ ہوں تو آپ ہر آڑے وقت ميں آگوا کار ہيں۔ گھروں ميں ماں باپ ، بہن بھائی سے مجادلہ، سو سائٹی ميں انسانی اقدار کيلئے مجادلہ، ہر محاز پر لڑتے لڑتے مارکسی فکر کی تصد يق کراتے رہے۔ کند ن بنتے رہے۔ ويسے تو سوسائٹی ميں عالم فاضل بہت ہيں۔ کيمسٹری، فزکس ،سوشل سائنسز ميں پی ايچ ڈی ہيں ليکن ان کا علم ايک چينل ميں مسافت کر تا ہے۔ جبکہ مارکسی    Epistemological & holistic approach  رکتھے ہيں۔ ايک دوسرے پر منحصر اور ايک دوسرے سے جڑا ہوا سائنسی انداز جس ميں آگے کی نشاندہی خود بخود ہوتی رہتی ہے۔ اس اساسے نے اْن کو غنی بنا د يا ہے۔ فخر کرتا ہے۔ مطمئن ہے۔ کسی بھی سياسی صورتحال ميں آگے کے طرف راستہ نکالنے کے اہل ہيں۔

يہ موتی سالہا سال سمجھ اور سچائی کی تلاش ميں ايک الگ Species بن گئے۔ موتی بن گئے۔  
                ليکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب ان ميںCatalyst  کیصلاحيت نہیں رہی۔ شاگردوں کا تسلسل رک گيا۔ وارث نہيں چھوڑے۔ شرح نمود و مزید پيداوار نہ ہونے کے برا بر ہے۔ پرانوں کے جنازوں ميں شرکت تک محدود رہ گئے۔ بکھرے نہ ہوتے تو بے پناہ طاقت بنتے۔ قومی انقلابی پارٹی نہ ٹوٹتی توآج حکومت بنانے کی پوزيشن ميں ہوتی۔


قومی انقلابی پارٹی(take off)  کے پوزيشن ميں آگئی تو اس وقت دو قطبی دنيا کے ٹوٹنے کا عمل  شروع ہوا۔  قومی انقلابی  پارٹی کے قيام کے بعد پہلی سنٹرل کميٹی کے کراچی کے اجلاس ميں، ميں نے يہ مسئلہ اٹھا يا کہ لگتا ہے دنيا بدل رہی ہے۔ ہميں دوسرا کانگرس بلانا ہوگا۔ اور نئی دنيا کے تناظر ميں رائے اور لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ گورباچوف نے بيان ديا کہ      " No to cold war" ۔ کولڈ وار تو دو نظاموں کے درميان تھا۔ کولڈ وار نہيں تو دو قطبی دنيا نہيں۔ سوشلسٹ کيمپ نہيں۔ اجلاس ميں کچھ دوست غصّہ ہوئے۔ يہ سننے کا حوصلہ نہيں تھا۔ اور کانگرس کو ٹالا گيا۔
سويت يو نین کے خاتمے پر مغربی پريس کا يک طرفہ پروپيگنڈہ تھا۔ لفٹ ميں سنجيدہ مذاکرے نہيں ہوئے۔ ٹراٹسکائٹس کے علاوہ پاکستان کے بائيں بازو ميں سويت يونین کے ٹوٹنے پر چار قسم کی رائے بنتی تھی۔
۱۔ ‘‘سويت پارٹی کی قيادت منحرف ہوگئی۔ جلد يا  بدير  پرانے موقف پر آجائيگی’’۔ سی آر اسلم۔ امام علی نازش
۲۔ ‘‘ستر سال سوشلزم رہا۔ انسانوں نے پہلے بھی تجربے کئے، يہ بھی تجربہ تھا  ،جونا کام ہوا۔ سرمايہ داری ہی واحد ترقی کا راستہ ہے۔’’ پروفيسر جمال نقوی ۔ افراسياب خٹک۔
۳۔‘‘ ستر سال سوشلزم رہا۔ جس نے سرمايہ داری پر بھی اثر ڈالا۔ سوشلزم اور سرمايہ داری نظام دونوں پرانے جيسے نہيں رہے۔ دونوں کے اشتراک سے نيا نظام وجود ميں آئيگا۔ سٹاک ایکسچنج کی نئی منصفانہ شکل وغيرہ۔ وغيرہ۔’’   يورپی نيو لفٹ کے زير اثر لوگ۔
۴۔ ‘‘مارکسی نظريے کی تين اجزائے ترکيبی ( قدرِ زايد، طبقاتی جدوجہد، جدلياتی تاريخی ماديت ) فلسفيا نہ طور پر کوئی چيلنج نہيں کر سکا۔ اس حقيقت کا متبادل نہيں ہے۔ سوشلزم نئے عصر ميں ،نئے شکل ميں، نئے انداز ميں آئيگا۔ جس کے خدوخال ابھی سے متعین کرنا ممکن نہيں۔ مستقبل بعيد اپنے نئے اقدار کے ساتھ اور زمان و مکان ميں سوشلزم کا شکل متعین کرےگا۔ مستقبل قريب کيليے تبد يلی کا پروگرام ترتيب دينے کی ضرورت ہے۔ ’’
          يہاں ستر سال سوشلزم کے دور کے دو جہتوں کا ذکر ضروری ہے۔
پہلی جہت:۔ 
  اکتوبر ۱۹۱۷ ؁  کے انقلاب نے سرمايہ داری نظام کے خلاف ايک نئے نظام کو عملی طور پر متعارف کرايا۔ اور اسی طرح کرہ ارض پربسنے والے انسانوں ميں دو متحارب سماجی نظام، دو متصادم قطب وجود ميں آگئے۔ سرمايہ داری نظام جس کی قيادت برطانيہ اور يورپ کے ہاتھ ميں تھی، نے وائٹ گارڈز اور گلبدين حکمتيار کے طرز پر باسمچی تحريک کوبيس (۲۰) پچيس سال تک حکمت عملی کے طور پر سوشلزم کے خاتمے کيلئے استعمال کيا۔ ليکن ناکام ہوئے۔
دوسری حکمت عملی کے طور پر ہٹلر سے اميدتھی کہ جنگ اور طاقت کے زور پر سوشلزم کو زير کرےگا۔ ليکن ابتدا ميں ہٹلر کا يورپی ممالک پر يلغار نے اتحاد کا شکل اْلٹا ديا۔ دوسری جنگ عظيم ميں دو کروڑ روسيوں کی قربانی نے مادر ِوطن کو بچا ليا۔ دوسری حکمت عملی کی ناکامی کے بعد  چرچل، روزولٹ اور سٹالن نے ‘‘ ليگ آف نيشن’’ کے بجائے اقوام متحدہ کے قيام اور کچھ نکات پر متفق ہوگئے۔ سرمايہ داری نظام کی قيادت امريکہ کے ہاتھ آگئی۔ اور اس نے سرد جنگ کی تیسری حکمت عملی شروع کی۔ نیوکليائی ہتھياروں کے انبار لگ گئے۔ نیوکليائی جنگ اگر تکنیکی غلطی سے بھی چِڑھ جاتی ہے تو اگرانسان ہی نہ ہو تو نظام چہ معنی؟۔ اسّی کے دہائی کے ابتدائی سالوں ميں امريکہ نے تين ٹريلین ڈالرز کا ‘‘سٹار وارز’’  کا بجٹ منظور کيا۔ سويت يونین نے جوابی بجٹ نہ ديا اور ہينڈز اپ(Hands up) کيا۔ سويت یونین میں نو جوان جینز، ٹافی، چیونگم پسند کرتے تھے۔ لیکن عوام نے نظام سے بغاوت نہيں کی۔ بلکہ قیادت نے نئے صورت حال کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے پر سالہا سال محنت کی۔ سویت یونین کے انہدام کوشکست کا نام دیا جائے ناکامی یا کچھ اور۔ لیکن معروض کو مد نظر رکھ کر مبنی بر حقیقت نام ہو۔
          دوسری جہت:
کارل مارکس کے دور میں سرمایہ داری نظام کے طرز پیداوار اور آج کے طرز پیداوار اور طبقات کی ہیئت میں بڑا فرق آیا ہے۔ سائینس اور ٹکنالوجی کے انقلاب کے گہرے اثرات ہیں۔ ایک صدی میں انسانی ارتقاء کے نتیجے میں اقدار اور سوچ کے انداز میں فرق آیا ہے۔ جمہوریت، نسل پرستی اور جنگوں کے شکلوں میں فرق آیا۔ ابتدائي سرمایہ داری کی جگہ  TNCs اورMNCs کی Sophisticated استحصال نے لے لی۔ تبدیلی کیلئے سماجی رشتوں کے سو سالہ پرانے پیمانے قابل عمل نہیں ہیں۔ مارکسی فکر کے تین اجزائے ترکیبی کے اصول کو بنیاد بنا کر ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جو عوام کو وقت کے Principal Contradiction پر جوڑ کر متحرک کر سکے۔ پروگرام کے ساتھ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ الفاظ اور تنظیم کاری کا انداز ہوا میں چھلانگیں نہ ہوں۔ لاطینی امریکہ یا لندن کے ماحول اور سوچ کا حصہ نہ ہو۔ اور نہ پچاس ستّر سال پرانے ایکشن کی ری پلےہو۔ بلکہ نتایج دینے والی (Result oriented)ہو۔
کشش ثقل: 
منظرنامے میں لفظ کشش ثقل کا مطلب تھا کہ تحریک پر اکتوبر انقلاب،سویت یو نین اور سوشلسٹ بلاک کے گہرے اثرات تھے۔ کارکن عوام سے بات کرتے وقت عملی مثالیں دیتے تھے۔ اور اب انہی کارکنوں کو لوگ کہتے ہیں کہ کہاں گیا آپ کا انقلاب؟ اور اگر نہیں رہ سکا تو آپ انقلاب کے بعد کیسے برقرار رکھ سکیں گے؟قومی انقلابی پارٹی کے چارسدہ کانگرس   ( جیسے بھی تھی) میں دیر، سوات اور بونیر کے علاوہ چند کو چھوڑ کے باقی سب صوبائی و ضلعی قیادت مارکسی راستے کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ اس کو برا بھلا کہا گیا۔ ذاکر حسین نے جو آج ‘‘سچا کھرا’’ مارکسی دھڑا کھڑا کیا ہے وہ بھی اسی صف میں کھڑا تھا۔ اور عصمت اور شاہ جہان بھی مجھے ایک دفعہ عورتوں کے مسائل کے حل کے لئے پختون نیشنلزم کو تریاق ثابت کرنے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ شاک سے نکلنے اور واپسی میں دیر لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن موتی تو بکھر گئے۔ اس میں افغان پارٹی اور ڈاکٹر نجیب کا بھی حصہ تھا۔  ساٹھ کی دھائی کے بعد سوشلزم کے بجائے عوامی جمہوریت اور پھر قومی جمہوریت سوشلزم سے پہلے کے مرحلے کے پروگرام میں شامل رہا۔ اور یہ کہ اگر سامراج سے آزادی حاصل کی جائے تو سوشلسٹ کیمپ قومی جمہوریتوں کی معاشی، سیاسی و تکنیکی معاونت کرےگی۔ اور سوشلزم کی طرف گامزن ہونے میں مدد دےگی۔ سوشلسٹ کیمپ نہیں رہا اور اس معنی میں قومی جمہوریت کا پروگرام Invalid ہو گیا۔۔۔۔۔تو چلو رائیونڈ چلو۔۔۔۔۔۔انسانی اور سماجی ارتقا  میں سامراجی  اور سرمایہ داری نظام ہمنوا کتنا ہے اور رکاوٹ کتنا؟  اس کا حساب رکھنا ضروری ہے۔ کیا سرمایہ داری کے بغیر معاشی اور پیداواری عمل رک جائیگا؟ کیا سرمایہ داری کو آج بھی لفظ استحصالی نظام سے یاد کیا جائے؟ یا بدمعاشی، گھپلہ بازی، گنڑ کپ اور ڈاکہ بازی کا لفظ بہتر رہےگا۔ بڑے پیمانے پر ڈاکہ بازی  چھوڑیں ، جو ریڑھی والے سے سودا لیتے ہیں، جو مریض ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں، جو بسترمرگ پر پڑے مریض کے لئیے دو نمبر تین نمبر دوائیں لیتے ہیں اور جو ہر روز سرمایہ داری کے حرص سے عذاب میں ہیں ان سے ذرا احوال لیں۔ پشاور میں سکول منڈی، ڈاکٹر منڈی دکان میں یونیورسٹی یا یونیورسٹی کے دکان کھل گئے۔اس نے عقیدے بھی کھوکھلے کر دیئے۔ لیکن ابھی تو ہم نے سرمایہ داری کے ساتھ ایسے زندگی گزارنی ہے جیسے کہ میں نے ایک دفعہ پلیجو صاحب سے پوچھا کہ سندھ میں مہاجر آباد ہیں سمجھوتہ کر لو آپ نے ان کے ساتھ رہنا ہی ہے۔ جواب دیا ۔ہاں رہنا ہے لیکن جیسے گھر میں بچھو کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔
اگر ذہن سماجی تبدیلی کے سائنسی علم سے منور ہو تو راستے نکلتے  ہیں۔ 
پختونخوا کا لفٹ سب مل کر بھی کوئی خاص عد دی حیثیت نہیں رکھتے۔ عد دی حیثیت کم بھی ہواگر عوام کو ساتھ جوڑتے، متحرک کرتے توآج کے سیاسی خلا کے دورمیں اہم سیاسی مقام بنا سکتے تھے۔ فی الحال پرانی بیٹری کے پرانے چارج پر گزارہ ہے۔ تھکے ہارے، حوصلہ کھویا ہوا، ایک دوسرے سے ناراض، آپس میں(interaction) نہیں کر تے۔ ورنہ ذ ہنوں کے دریچے کھلتے۔ ہر ایک کی زندگی ایک تاریخ ہے،ایک کہانی ہے۔
 جیسا کہ ذکر کیا تھا تین نظریاتی یا فکری گروپوں میں منقسم ہیں۔
۱۔ سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان۔  ان کا خیال ہے کہ سٹالن کے بعد تحریک موقع پرستی اور سازشوں کا شکار رہا۔ ہم آئندہ ایسا نہیں ہونے دینگے۔ آپ کے ارادے کی تکمیل کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ٹائم ٹنل(Time Tunnel) میں سو سال پیچھے چلے جائیں۔ زار کا روس ہے۔ پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہے، سرمایہ داری کا ابتدائی دور ہے، روسیوں نے کبھی بورژوا جمہوریت نہیں دیکھی ہے، روسی کلاسیکل ادب کا عروج ہے، اپنی تاریخی اقدار اور نفسیات ہیں، ریاست کمزور ہے، تخلیقی قیادت ہے، انقلاب برپا ہوتا ہے۔ انقلاب کی تکمیل کیلئے ہر دور میں بھرپور کردار ادا کرتےآئے ہیں۔ ایسے میں یہاں سے آپ کا کیا رول (Role)بنتا ہے؟ موضوعی دنیا سے نکل کر، اپنے اور دوسروں کے ایمان پر شک کئے بغیراور تسبیح پڑھنا چھوڑکرآج کے دور میں آئیں۔ پاکستان اور پختونخوا میں آئیں۔ آج کو تبد یل کرنے کے لئیے نتیجہ خیز صبح کا اغاز کریں اور شام کوعوام کی پیش رفت کا جائزہ لیں اور اس میں اپنے کردار کا تعین کریں۔
انجنئر جمیل ملک کی کمیونسٹ پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔ عوامی مسائیل پر اپنی بساط جد و جہد کرتی ہے وہ چاہے عدالت کے ذریعے کیوں نہ ہو۔اور عوامی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن انگریز کے ڈ یڑھ سو سالہ اسلام کے حوالے سے پروپیگنڈے کے نتیجے میں عوامی بنیاد پر پاکستان میں پارٹی کھڑی کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ نام سے چمٹے رہنا ضروری ہے یا مقصد کا حصول؟
۲۔ پہلے گروپ کے تربور( متحارب چچا زاد ) لال خان ( تنویر گوندل ) والوں کے بھی کافی گروپ ہیں۔ لیکن بنیادی فکر اور انداز ایک جیسا ہے۔ ستر سال پرانے تاریخی واقعات کے اسیر ہو گئے، بدلے کی سیاست میں پھنس گئے۔ رہنما لندن میں لیبر پارٹی میں کام کرتے ہیں سوچا پاکستان میں لیبر پارتی نہیں تو پیپلز پارٹی میں کام کیا جائے۔ طبقاتی جد و جہد پر زور دیتے ہیں لیکن‘‘ جیوے بلاول بھٹو زرداری’’،‘‘ جیوے انور سیف اللہ’’ کو مزدور طبقے کی سیاست سمجھتے ہیں۔ تنظیم میں مارکسی تعریف کے پرولتاریہ کا کتنا فیصد حصہ ہے۔ کتنے صنعتی مزدوروں کو یونئنز میں منظم کیا۔ روزمرہ کے اہم ایشوز پر عوام کو اگاہی دیتے ہوے منظم کرنے والے مارکسیوں کا شکار کرتے ہیں اور سیاست کے بجائے تاریخ کے بہنور میں دھکیلتے ہیں۔ ان کے نزد یک تحریک طالبان طبقاتی جد و جہد ہے۔ قومی مسئلہ، جمہوری مسئلہ بورژوا جمہوریت کے بے معنی غیر اہم مسائل ہیں۔ عوام خود انقلاب لائیں گے۔ اور عوام کے جتھے  ڈھونڈ کران کو قیادت سپرد کردیں گے۔ جہاں تک لیون ٹراٹسکی اور کمنٹرن کے کچھ دیگر رہنماوں کا اکتوبر انقلاب کے وقت موقف کہ انقلاب سرمایہ داری کے مراکز والے ممالک میں آنا چاہئے میں کافی حقیقت تھا لیکن لینن کے موقف میں بھی بہت زور تھا۔ آج کے دور میں سرمایہ داری کےمراکزانقلاب کے مراکز ہوں گے۔ سوشلسٹ کیمپ کے خاتمہ کے بعد یورپ امریکہ کیلئے ان کا موقف درست ہوگا۔ وہاں پر ان کے تنظیموں کا کردار اور پروگرام بھی درست ہوگا۔  وہاں وہ لوگ انقلاب لے آئیں گے تو ہمارے جیسے ممالک کیلئے بھی راستے کھلیں گے۔کسی بھی ملک میں انقلاب یا کوئی بڑی تبدیلی کے اپنے اپنے Dynamicsہوتے ہیں ۔ کوئی ایکشن ریپلے(Action Replay) ممکن نہیں ہوتا۔  فاروق طارق  نے درست سمت میں   قدم رکھا ہے ۔
ان دونوں گروپوں کے مارکسزم کے اپنے اپنے Interpretationsکے علاوہ   آج اور بھی چھوٹے چھوٹے گروپ اور افراد نظریاتی مسائل کو اپنے اپنے  انداز سے دیکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لیکن جب Interpretationعوام کو کم از کم پروگرام پر اکھٹے کرانے ، ایک پلیٹ فارم پر جمع کرانے، عوام کے عمومی سوچ کو عمل میں تبدیل کرنے ، چھوٹی کامیابیوں کے زریعے سیکھنے میں مزاحم ہوجائے تو یہ گناہ ہے۔
مارکسزم انسان کو سماجی ، معاشی عمل کے زریعے مادی و روحانی ترقی کے طرف گامزن کرانے کا علم ہے، ہر اس عمل کے خلاف جدو جہد ضروری ہے۔ جو انسان معاشرے کی مادی و روحانی ترقی میں رکاوٹ ہو۔
تیسرے نقطہ نظر کی وضاحت میں جانے سے پہلے چند معروضی حقائق پر توجہ ضروری ہے۔
۱۔ یورپ میں جاگیرداری نظام کے خاتمے اور سرمایہ داری کے ارتقا  ٔ کا چند صدیوں پرانے طریقہ کار کا من و عن کلاسیکی طرز پر تکرار نہیں ہوگا۔  سرمایہ داری کا سامراجی شکل اختیار کرنے اور ملٹی نیشنل کے وجود میں آنے سے اس کے بقیہ دنیا کے قبائلی و جاگیرداری نظام کی تبدیلی میں گہرا کردار ہے۔ جو کلاسیکی نہیں لیکن بقیہ دنیا کے لئے فطری ہے۔ ہندوستان میں جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن پاکستان میں جاگیرداری برقرار رہی۔ جس پر عالمی تبدیلیوں کے اثرات منفرد ہیں۔ آلات پیداوار سرمایہ دارانہ ہیں۔ پیداوار منڈی کے لئے ہے۔ لیکن سماجی رشتوں میں قبائلی و جاگیرداری رشتے کافی حد تک برقرار ہیں۔ وسطی پنجاب کے علاوہ بقیہ پنجاب اور دیہی سندھ میں جاگیرداری رشتے ہیں۔ اسی جاگیردار کا اپنا رہن سہن شہری(Urban) ہے اور سرمایہ کاری بھی کرتا ہے۔ بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں قبائلی رشتے برقرار ہیں۔ سماجی نفسیات غالب سرمایہ دارانہ نہ بن سکے۔ لہذا پارلیمنٹ کی آدھی طاقت اپنی توانائی جاگیرداری و قبائلی رشتوں سے حاصل کرتی ہے۔ پارلیمنٹ اور قانون سازی پر جاگیرداری کنٹرول ہے۔ جاگیرداری  یا تو  پْرتشد د کسان تحریک سے  ختم ہو سکتی ہیں یا ملکی جمہوری قوتوں کا موثر آواز و کردار سے۔ بڑی ملکیتوں کو  سرکاری کنسورشیم میں لے کر مالکان کو سٹاک ایکسچنج میں حصہ دار بنا کر جاپانی تجربہ ہی سیاسی معاشی و سماجی پیش رفت کا ذ ریعہ بن سکتا ہے۔ حکمران طبقات ریاستی اداروں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں بھی بہت ہیں کہ ریاستی اداروں کی ادارتی مفادات مقدم ہو جاتی ہیں اور حکمران طبقات سے گٹھ جوڑ کر کے حکمرانی کرتے ہیں۔ پاکستان میں جسے اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے دونوں پر مشتمل طاقتور قوت ہے۔ بڑی پارٹیاں(Mainstream Parties) جب نام لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں تو انہیں مقتدر قوتیں کہتے ہیں۔
۲۔   پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ جس میں مٹھی کی بو اور انسان غائب تھا۔ قائد اعظم نے جو بھی کہا بے معنی ہے۔ اس کے نواب جاگیردار ساتھیوں کا ٹولہ اسلام کا وارث نہیں بن سکتا تھا۔ وارث مْلا ہی ہو سکتے تھے۔ آئین و قانون میں ممکنہ تبد یلیاں کی گئیں۔ اور اصلی اسلام کی تعریف کی وجہ سے بڑی تعداد میں مَسلکیں وجود میں آئیں۔ ہر مسلک کی سیاسی پارٹی بنی۔ ہر مسلک بزور طاقت اور بعض صورتوں میں وحشیانہ انداز سے دوسروں کی مسلک تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ اس طرح ارتقا دو شکلوں میں ہوئی۔ ایک فرقہ وارئیت اور دوسری طالبنائیزیشن۔ اسلام کے اس پیش رفت سے عوام نالاں ہیں۔ اور یوں پاکستان کا نظریاتی اساس اب ملک کو جوڑنے سے قاصر ہے۔ ہر ملک و قوم کا ایک نازPrideہوتا ہے۔ جو قوم کو متحد رکھتا ہے۔ ایرانی، برطانوی، فرانسیسی، جرمن و جاپانی  ناز Pride اگر ان سے لے لیا جائے تو زوال اور اِنارکی مقد ر بن جاتی ہے۔ نہ صرف نظریاتی اساس بلکہ پاکستانی ریاست کے سب پیچ پْرزے، اقتصاد، ادارے، قانون، نچھلے سطح پر عد لیہ معدوم ہونے کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ تقریبا ایسی حالت ہوگئی ہے کہ جیسے ڈاکٹر مریض کو جواب دے دیتا ہےاور اس سے پرہیز ختم کرا دیتا ہے۔ لواحقین مزاروں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کا احساس لاہور ملتان اور بالادست طبقات میں نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچ شکست خوردہ بیمار ذہنیت کی پیداوار ہے لیکن پاکستانی عوام ۱۵ دسمبر اور ۱۶ دسمبر ۷۱ کی ایک دن کی ذ ہنی حالت کی فرق کو خود د یکھ چکے ہیں کہ کیا سے کیا ہوجاتا ہے؟لیکن دوسری طرف یہ حقیقت کہ پشاور اور ٹیکسلا، پشاور اور لاہور ملتان کا رشتہ ۴۷ میں نہیں بنا۔ ان رشتوں کو انسانی اور سائینسی بنیادوں پر کھڑے کرنے سے ملک بچے گا ورنہ جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ نئے کرب کو جنم د یگا۔ اٹھارویں ترمیم خوش آئند ہے لیکن بلوچ نوجوانوں کی صلاحیتوں اور توانائی کو ملک کے لئے استعمال کرنے کے لئے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہوگی۔ جو قوموں کی رضاکارانہ وفا ق، جمہوریت، انسانی حقوق، طبقاتی تفریق کم کرنے، جنسی تفریق ختم کرنے، اور لفظ ‘‘اقلیت’’ کو معدوم کرنے کی بنیاد پر جمہوری فلاحی ریاست کی تصورپر استوار ہو۔ جو سرمایہ داری کے عالمی مراکز میں تبد یلی کے بعد سوشلزم کی طرف گامزن ہو سکے گا۔ اس مرحلے میں‘‘ بکھرے موتی’’  کا حوصلہ ہارنا بد قسمتی ہے۔
۳۔ امریکہ کا نام اکثریتی لفٹ کے لئے بْل فائٹر کے سرخ کپڑے کی مانند ہو گئ ہے۔ سچ جھوٹ، نفع نقصان بھول جاتے ہیں۔ مارکس  انسانی رشتوں کی ترویج میں سرمایہ داری کو رکاوٹ قرار دیتے تھے۔ پسماندہ افکار بھی رکاوٹ ہیں۔ عورتوں اور انسانوں کی غلامی، طالبنائزیشن کے وحشت و بربریت کا اگر امریکہ مخالف ہے اور ہم بھی مخالفت کریں توامریکہ کے ساتھ ہم آہنگ نظر آئیگے اس گو مگو نے لفٹ کو بے عملی کا شکار کیا۔ پولیو کے خاتمے کے لئے امریکی ڈالر، تعلیم کے لئے یو اس ایڈUSAid  کی گرانٹ اور مسلمانوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے لیٹرین بنانے کے امریکی امداد کی حمایت میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ ملکی معیشیت کو سامراجی گرفت سے آزاد کرانے کی سعی ہی امریکی مخالفت ہے ۔ اس بتدریج ٹھوس معاشی پروگرام پر بات ہی نہیں ہو رہی۔
          ملک کا سیاسی کلچر بگڑا ہوا ہے۔ بڑے سیاسی پارٹیوں میں فرق نہیں رہا۔ موروثی پارٹیاں ہیں۔ سیاست کاروبار بن گیا۔ اس سیاسی میلے میں بے بس یتیم عوام کی مانگوں اور فکر کو متحد کرکے ایک قوت بنانے کی ضرورت ہے۔ نظر آنے والی ایسے محدود گروہ اپنے گرد مزید لوگوں کو یکجا کرتی رہتی ہے۔ نیشنل پارٹی نے بلوچستان میں ایک مرکز Baseبنا لیا ہے۔ جس کو پنجاب، سندھ اور پختونخوا میں اپنی خصوصیت کے ساتھ فیڈرل انداز میں متبادل بنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں قومی مسئلہ زیادہ اہم ہے تو پنجاب میں طبقاتی، پختونخوا میں طبقاتی و قومی۔ عوامی ورکرز پارٹی کے دوستوں کو موضوعیت سے نکل کر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ پنجاب کراچی کے دوست اس کرب کو محسوس کریں۔ ملک گیر سیاسی ورکروں کی موثرجمہوری پارٹی کا اور کوئی متبادل نہیں۔
          پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی  لبرل، سیکولر وراثتی پارٹیاں ہیں ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ ہے۔ ان کا ملک کے سیاست میں مثبت کردار ہے۔ لیکن ان کے اندر تبد یلیاں لانے اور وراثت کی جمعہ بند یوں انتقالات میں تبد یلیوں کے لئے کاوشیں کرنے والے پٹواریوں نے یہ تجربات بہت کیے۔ غیر فطری تجربات صرف مایوسی د یگا۔
          بکھرے موتی بحث کے لئے بنیاد ہے۔ انفرادی اور منظم بحث ومباحثہ کی دعوت ہے

No comments:

Post a Comment